ہوائے بے طرف و فصل بے ثمر گزری
ترے بغیر گزرنا ہی کیا مگر گزری
شریک شورش دنیا ہوں اور سوچتا ہوں
کہ شمع بزم طرب سے بھی چشم تر گزری
نہ تھی پہاڑ سے کچھ کم مگر مصیبت عمر
ترے خیال میں گزری تو مختصر گزری
کوئی بھی کام نہ آیا شکستہ بالی میں
صبا بھی شاخ نشیمن کو کاٹ کر گزری
مری نگاہ نے خوابوں میں خود کو پہچانا
کہ جاگتے میں جو گزری وہ بے بصر گزری
زمانے بھر سے الگ ہو کے میں ادھر کو چلا
جدھر جدھر سے مرے دل کی رہ گزر گزری

غزل
ہوائے بے طرف و فصل بے ثمر گزری
خورشید رضوی