ہوا چلتی ہے دم ٹھہرا ہوا ہے
فضا میں کس کا غم ٹھہرا ہوا ہے
تصور میں ابھرتے خال و خد پر
مصور کا قلم ٹھہرا ہوا ہے
اسی کو اپنی منزل کہہ رہا ہے
جہاں جس کا قدم ٹھہرا ہوا ہے
سماعت کے جزیروں میں کہیں پر
ترے لہجے کا رم ٹھہرا ہوا ہے
ذرا ٹھہرو کہ چلتی ہے ابھی سانس
چلے آؤ کہ دم ٹھہرا ہوا ہے
مرے خوابوں کے رخساروں پہ اب تک
کسی بوسے کا نم ٹھہرا ہوا ہے
خدا بھی ہے اسی کوچے کا باسی
جہاں میرا صنم ٹھہرا ہوا ہے
غزل
ہوا چلتی ہے دم ٹھہرا ہوا ہے
سرفراز زاہد