ہوا چلے ورق آرزو پلٹ جائے
طلوع ہو کوئی چہرہ تو دھند چھٹ جائے
یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو
کہیں نہ پھر سے ندی آنسوؤں کی گھٹ جائے
بلندیوں کی ہوس ہی زمین پر لائی
کہو فلک سے کہ اب راستے سے ہٹ جائے
گرفت ڈھیلی کرو وقت کو گزرنے دو
کہ ڈور پھر نہ کہیں ساعتوں کی کٹ جائے
اسی لیے نہیں سوتے ہیں ہم کہ دنیا میں
شب فراق کی سوغات سب میں بٹ جائے
غزل
ہوا چلے ورق آرزو پلٹ جائے
شہریار