EN हिंदी
ہوا چلے ورق آرزو پلٹ جائے | شیح شیری
hawa chale waraq-e-arzu palaT jae

غزل

ہوا چلے ورق آرزو پلٹ جائے

شہریار

;

ہوا چلے ورق آرزو پلٹ جائے
طلوع ہو کوئی چہرہ تو دھند چھٹ جائے

یہی ہے وقت کہ خوابوں کے بادباں کھولو
کہیں نہ پھر سے ندی آنسوؤں کی گھٹ جائے

بلندیوں کی ہوس ہی زمین پر لائی
کہو فلک سے کہ اب راستے سے ہٹ جائے

گرفت ڈھیلی کرو وقت کو گزرنے دو
کہ ڈور پھر نہ کہیں ساعتوں کی کٹ جائے

اسی لیے نہیں سوتے ہیں ہم کہ دنیا میں
شب فراق کی سوغات سب میں بٹ جائے