ہوا بھی زور پہ تھی تیز تھا بہاؤ بھی
لڑی ہے خوب مگر کاغذی سی ناؤ بھی
ابھی سے ہاتھ چھڑاتے ہو واپسی کے لیے
جو چل پڑے ہو تو پھر ساتھ ساتھ آؤ بھی
جسے جہاں کی روش دور لے گئی اس کو
قریب لا نہ سکیں تم مری وفاؤ بھی
بندھا رہا بہر انداز حلقۂ یاراں
ہوا ہے سرد کہیں درد کا الاؤ بھی
بجا کہ میری طبیعت بھی لاابالی تھی
پہ زود رنج تھا دنیا ترا سبھاؤ بھی
عبادتوں کی شرابیں بھی پی چکا لیکن
سکون دے نہ سکے تم مرے خداؤ بھی
غزل
ہوا بھی زور پہ تھی تیز تھا بہاؤ بھی
جلیل عالیؔ