EN हिंदी
ہوا بھی گرم ہے چھائے ہیں سرخ بادل کیوں | شیح شیری
hawa bhi garm hai chhae hain surKH baadal kyun

غزل

ہوا بھی گرم ہے چھائے ہیں سرخ بادل کیوں

شفا کجگاؤنوی

;

ہوا بھی گرم ہے چھائے ہیں سرخ بادل کیوں
یہ ظلم کس پہ ہوا روئی خاک مقتل کیوں

جو خواب دیکھتی آئی ہوں اپنے بچپن سے
ادھورا خواب وہ ہوتا نہیں مکمل کیوں

جو آرزو تھی کہ ہوں ارد گرد گل بوٹے
تو تم نے ناگ پھنی کے اگائے جنگل کیوں

ہم اپنے شوق کی دنیا میں گم تھے کچھ ایسے
سمجھ نہ پائے کہ بھیگا ہے ماں کا آنچل کیوں

سکوت سے بھی سمندر کے خوف آتا ہے
ہیں کیوں خموش یہ موجیں نہیں ہے ہلچل کیوں

میں جب سکون کی منزل سے چند گام پہ ہوں
صدائیں دیتا ہے ماضی مرا مسلسل کیوں

وہ کون اپنا شفاؔ یاد آ گیا تم کو
تمہاری آنکھ ہوئی جا رہی ہے جل تھل کیوں