ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے
سو اک افواہ بھی اڑنے لگی ہے
ہم آوازوں سے خالی ہو رہے ہیں
خلا میں ہوک سی اٹھنے لگی ہے
کہاں رہتا ہے گھر کوئی بھی خالی
ان آنکھوں میں نمی رہنے لگی ہے
ہوئی بالغ مری تنہائی آخر
کسی کی آرزو کرنے لگی ہے
مسلسل روشنی کی بارشوں سے
نظر میں کائی سی جمنے لگی ہے

غزل
ہوا باتوں کی جو چلنے لگی ہے
سوپنل تیواری