ہوا آشفتہ تر رکھتی ہے ہم آشفتہ حالوں کو
برتنا چاہتی ہے دشت مجنوں کے حوالوں کو
نہ آیا کچھ مگر ہم کشتگان شوق کو آیا
ہوا کی زد میں آخر بے سپر رکھنا خیالوں کو
خدا رکھے تجھے اے نقش دیوار صنم خانہ
کہیں گے لوگ دیوار ابد تیری مثالوں کو
اندھیری رات میں اک دشت وحشت زندگی نکلی
چلا جاتا ہوں دامان نظر دیتا اجالوں کو
بجھا جاتا ہے دل سا ایک لعل شب چراغ آخر
کہاں لے جاؤں اس کے ساتھ کے صاحب جمالوں کو
کھڑی ہے تاج پہنے شہر میں خار مغیلاں کا
جواب تازہ دینے زندگی کہنہ سوالوں کو
خیاباں خندقوں میں کھل گئے وہ موج خوں گزری
ہوائے زخمہ ور نے ساز سمجھا ہے نہالوں کو
نکلنے ہی نہ پائے حلقۂ دشت تمنا سے
ملی تھی گردش پرکار ایسی کچھ غزالوں کو
سبو میں موجزن آب ضمیر مے گساراں ہے
طلوع صبح تک روشن رکھیں گے ہم پیالوں کو
کبود و سرخ میں تھی نیک و بد میں داغ و درماں میں
ہوا سیاح تھی دیکھ آئی سب غم کے شوالوں کو
تغیر کی زمیں پر آدمی کا تیز رو پرتو
گیا ہے صورت مشعل لیے آئندہ سالوں کو
غزل
ہوا آشفتہ تر رکھتی ہے ہم آشفتہ حالوں کو
عزیز حامد مدنی