حوصلے زندگی کے دیکھتے ہیں
چلئے کچھ روز جی کے دیکھتے ہیں
نیند پچھلی صدی کی زخمی ہے
خواب اگلی صدی کے دیکھتے ہیں
روز ہم اک اندھیری دھند کے پار
قافلے روشنی کے دیکھتے ہیں
دھوپ اتنی کراہتی کیوں ہے
چھاؤں کے زخم سی کے دیکھتے ہیں
ٹکٹکی باندھ لی ہے آنکھوں نے
راستے واپسی کے دیکھتے ہیں
پانیوں سے تو پیاس بجھتی نہیں
آئیے زہر پی کے دیکھتے ہیں
غزل
حوصلے زندگی کے دیکھتے ہیں
راحتؔ اندوری