حوصلے تھے کبھی بلندی پر
اب فقط بے بسی بلندی پر
خاک میں مل گئی انا سب کی
چڑھ گئی تھی بڑی بلندی پر
پھر زمیں پر بکھر گئی آ کر
دھوپ کچھ پل رہی بلندی پر
کھل رہی ہے تمام خوشیوں میں
اک تمہاری کمی بلندی پر
ہم زمیں سے یہی سمجھتے تھے
ہے بہت روشنی بلندی پر
گر گئی ہیں سماج کی قدریں
چڑھ گیا آدمی بلندی پر
زندگی دیکھ کر ہوئی حیران
آ گئی موت بھی بلندی پر
مجھ سے صحرا پناہ مانگے ہے
دیکھ وحشت میری بلندی پر
ہم زمیں پر گرے بلندی سے
خاک اڑ کر گئی بلندی پر
ایک دل پر کبھی حکومت تھی
یعنی میں تھا کبھی بلندی پر
کھل رہی ہے کچھ ایک لوگوں کو
میری موجودگی بلندی پر
ہے خدا سامنے میرے موجود
آ گئی بندگی بلندی پر
غزل
حوصلے تھے کبھی بلندی پر
سراج فیصل خان