حوصلہ تو نے دیا دکھ کی پذیرائی کا
مجھ کو اندازہ نہ تھا زخم کی گہرائی کا
خوشبوئیں پھول سے اب اذن سفر مانگتی ہیں
اس قدر قحط پڑا شہر میں گویائی کا
اب نگاہوں میں نہ منظر ہے نہ پس منظر ہے
ایک الزام ان آنکھوں پہ ہے بینائی کا
سر دہلیز پریشان و سراسیمہ ہوں
در مقفل ہوا مجھ پر مری تنہائی کا
سلسلے ٹوٹ چکے سارے محبت کے مگر
سر سے اک ربط ہے قائم ابھی شہنائی کا
اس قدر جھوٹ رچا ہے رگ و پے میں محسنؔ
چہرہ اب مسخ نظر آتا ہے سچائی کا
غزل
حوصلہ تو نے دیا دکھ کی پذیرائی کا
محسن احسان