حوصلہ دے دے کے اونچا میرا سر اس نے کیا
ظلم کے آگے مجھے سینہ سپر اس نے کیا
پیار سے سب دشمنوں کے دل میں گھر اس نے کیا
دوستی کا معرکہ اس طرح سر اس نے کیا
جن کو پینے کا سلیقہ تھا نہ جینے کا شعور
بند ان لوگوں پہ میخانے کا در اس نے کیا
پہلے تو دیوار اٹھائی شہر کے چاروں طرف
پھر اسی دیوار میں اک روز در اس نے کیا
پہلے اپنا غم تھا پر اس کا تھا اب دنیا کا ہے
دھیرے دھیرے ایک پودے کو شجر اس نے کیا
کون سی شے تھی جو اس دھرتی کے دامن میں نہ تھی
پھر نہ جانے کیوں خلاؤں کا سفر اس نے کیا
جو خلشؔ واقف نہ تھے شعر و سخن کے نام سے
عام ان لوگوں پہ غالبؔ کا ہنر اس نے کیا

غزل
حوصلہ دے دے کے اونچا میرا سر اس نے کیا
خلش بڑودوی