ہتھیلیوں میں لکیروں کا جال تھا کتنا
مرے نصیب میں میرا زوال تھا کتنا
تو جنگلوں کی طرح آگ مجھ میں پھیل گئی
رگوں میں بہتا ہوا اشتعال تھا کتنا
تبھی تو جلتی چٹانوں پہ لا کے پھینک دیا
مرا وجود ہوا پر وبال تھا کتنا
سبھی پرندے مرے پاس آتے ڈرتے تھے
میں خشک پیڑ سہی بے مثال تھا کتنا
مگر ملا نہ کہیں ساتواں جواب اب تک
مجھے ستاتا ہوا اک سوال تھا کتنا

غزل
ہتھیلیوں میں لکیروں کا جال تھا کتنا
اعجاز عبید