ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے
کوئی تو ہو جو کبھی دل کے روبرو آئے
مرے لہو سے اگر ہو کے سرخ رو آئے
ملو تو برگ حنا میں وفا کی بو آئے
وہ آنسوؤں کی صفائی سے بد گماں ہیں عبث
دل و جگر میں رہا کیا ہے جو لہو آئے
شب وصال بھی تا صبح مطمئن نہ رہا
ابھی تھی رات کہ پیغام آرزو آئے
بیان برق تجلی چھڑا ہے اب سر طور
عجب نہیں مرے دل کی بھی گفتگو آئے
وصال و ہجر میں چھپتا ہے دل کا حال کہیں
بجھے تو پیاس سوا ہو جلے تو بو آئے
جو مے کے دینے میں پیر مغاں کو تھا انکار
دلوں کو توڑنے کیوں شیشہ و سبو آئے
عجب ہے اترے دم ذبح ان کی آنکھ میں خون
کٹیں کہاں کی رگیں اور کہاں لہو آئے
کیا سوال تو اس در سے یہ صدا آئی
اسے جواب ہے جو لے کے آرزو آئے
جہان میں ہیں سبکبار کب شگفتہ مزاج
چمن کے پھول لئے بار رنگ و بو آئے
مری زبان کو کانٹا سمجھتا ہے صیاد
نکال لے کہ نہ یہ ہو نہ گفتگو آئے
جھٹک رہی ہے مرا خون اپنے دامن سے
تمہاری تیغ ہے پھر کیا وفا کی بو آئے
مدد دے اتنی تڑپنے میں انقلاب جہاں
جو میرے دل میں نہاں ہے وہ روبرو آئے
بڑھا بڑھا کے مرا دل لگائیے تلوار
جگہ جفا کی سوا ہو اگر نمو آئے
غزل
ہٹے یہ آئنہ محفل سے اور تو آئے
ثاقب لکھنوی