EN हिंदी
ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت | شیح شیری
hasti ko teri bas hai miyan gul ki ishaarat

غزل

ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت

محمد رفیع سودا

;

ہستی کو تری بس ہے میاں گل کی اشارت
کافی ہے مرے نالے کو بلبل کی اشارت

فتویٰ طلب اے یار نہ قاضی سے کروں میں
توبہ شکنی کو ہے مری مل کی اشارت

مل بیٹھ میری آنکھوں میں ہے ساعت نیک آج
یہ چشم ترازو ہیں ترے تل کی اشارت

ہے باعث جمعیت دل ایک جہاں کی
اے شوخ پریشانیٔ کاکل کی اشارت

تقویٰ کے نہیں بار سے قد خم ترا اے شیخ
اک خلق میں مشہور ہے اس پل کی اشارت

یاد آئے تری زلف نہ مجھ کو جو چمن میں
دے تاب مرے دل کو نہ سنبل کی اشارت

عشاق کو تجھ چشم کے حاجت نہیں مے کی
بے ہوش کرے سوداؔ کو قلقل کی اشارت