ہستی کو جمال دے رہا ہوں
میں تیری مثال دے رہا ہوں
معنی پہ چڑھا کے غازۂ نو
لفظوں کو خیال دے رہا ہوں
ماضی پہ نگہ ہے اپنی گہری
فردا کو میں حال دے رہا ہوں
مشکل بھی ہے اور سہل بھی ہے
ایسا میں سوال دے رہا ہوں
شیشہ گری ہے عجیب میری
آئینے کو بال دے رہا ہوں
ماحول میں ہے کچھ ایسی خنکی
جذبات کو شال دے رہا ہوں
کیوں عارض وقت اب نہ نکھرے
فن کا حسیں خال دے رہا ہوں
امروز کے جتنے ہیں مسائل
فردا ہی پہ ٹال دے رہا ہوں
پھنس کر یوں شکنجے میں گنہ کے
مکڑی کو میں جال دے رہا ہوں
گمراہ زمانہ ہے تو کیا غم؟
شمع مہ و سال دے رہا ہوں
دل ٹوٹ گیا تو کیا کرامتؔ
پیغام وصال دے رہا ہوں
غزل
ہستی کو جمال دے رہا ہوں
کرامت علی کرامت