حسرتوں کو نہ ذہن رسوا کریں
دور ہٹ جائیں ان کو رستہ کریں
کون کہتا ہے وو پکارا کریں
اپنی آنکھوں کا بس اشارہ کریں
سنگ پڑنے لگے رقیبوں پے
کیسے تسلیم یے خسارہ کریں
خوب لگتے ہیں کتنے گلدستے
سب اداؤں کو آپ یکجا کریں
سارے کردار اطمینان میں ہیں
اب کہانی میں موڑ پیدا کریں
آگ کس طرح ہم رکھیں زندہ
سانس کو اور کتنا گہرا کریں
غزل
حسرتوں کو نہ ذہن رسوا کریں
نشانت شری واستو نایاب