EN हिंदी
حسرت عہد وفا باقی ہے | شیح شیری
hasrat-e-ahd-e-wafa baqi hai

غزل

حسرت عہد وفا باقی ہے

ناصر شہزاد

;

حسرت عہد وفا باقی ہے
تیری آنکھوں میں حیا باقی ہے

بات میں کہنہ روایات کا لطف
ہاتھ پر رنگ حنا باقی ہے

ابھی حاصل نہیں ظالم کو دوام
ابھی دنیا میں خدا باقی ہے

بجھ گیا گر کے خنک آب میں چاند
سطح دریا پہ صدا باقی ہے

گوپیاں ہی کسی گوکل میں نہیں
بنسیوں میں تو نوا باقی ہے

پاؤں کے نیچے سرکتی ہوئی خاک
سر میں مسند کی ہوا باقی ہے

بیچ میں رات، بچن، بیتے ملن
اوٹ میں جلتا دیا باقی ہے

دیکھ یہ چاند ندی پھول نہ جا
رت میں رس شب میں نشہ باقی ہے