حسیں یادیں سنہرے خواب پیچھے چھوڑ آئے ہیں
مہاجر کی کہانی میں ہزاروں موڑ آئے ہیں
نہ کھل پایا کبھی باب محبت کم نصیبوں پر
فصیل شہر جاناں سے کئی سر پھوڑ آئے ہیں
بشر کی بے ثباتی بھی کسی سے حل نہ ہو پائی
زمیں سے چاند تاروں تک سبھی سر جوڑ آئے ہیں
ملے روٹی کے ٹکڑے کچھ مگر تم یہ بھی سوچو کب
شکم کی آگ میں ہم عہد و پیماں توڑ آئے ہیں
پلا دے اپنے ہاتھوں سے ذرا اک جام اے ساقی
ترے میکش در و دیوار و درہم چھوڑ آئے ہیں
غزل
حسیں یادیں سنہرے خواب پیچھے چھوڑ آئے ہیں
ذاکر خان ذاکر