حسیں دماغ ملے جاگتا شعور ملے
خدا کرے کہ تجھے راستے میں نور ملے
بہت ہے سایۂ بیدار خلوت غم کا
کہ خلوتوں کے امیں بے خودی میں چور ملے
یہی جتن ہے کہ تقدیر سرنگوں نہ رہے
اسے بھی اس نگۂ ناز کا غرور ملے
حسین تر ہو زمانہ جمیل تر ہو حیات
اگر لگن نہ لگے خاک پھر سرور ملے
انہیں نگاہ کی آغوش میں بسایا تھا
کھلی نگاہ تو وہ زندگی سے دور ملے
وہ جن کو تیرے تغافل نے کر دیا مجرم
مری نظر کو وہی لوگ بے قصور ملے
میں خود ہی درد سے دامن بچا کے گزرا ہوں
وگرنہ زیست کو پرواز غم ضرور ملے
غزل
حسیں دماغ ملے جاگتا شعور ملے
نصیر پرواز