حشر اک گزرا ہے ویرانے پہ گھر ہونے تک
جانے کیا بیتی ہے دانے پہ شجر ہونے تک
ہجر کی شب یہ مرے سوز دروں کا عالم
جل کے میں خاک نہ ہو جاؤں سحر ہونے تک
اہل دل رہتے ہیں تا زیست وفا کے پابند
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
بے قراری کا یہ عالم ہے سر شام ہی جب
دیکھیں کیا ہوتا ہے اس دل کا سحر ہونے تک
دیکھیں گے حشر جفاؤں کا ہم ان کی دانشؔ
رہ گئے زندہ جو آہوں کے اثر ہونے تک
غزل
حشر اک گزرا ہے ویرانے پہ گھر ہونے تک
دانش فراہی