حسب مقصود ہو گیا ہوں میں
راکھ کا دود ہو گیا ہوں میں
ایک کمرے تلک بصیرت ہے
کتنا محدود ہو گیا ہوں میں
نام پہلے برائے نام تو تھا
اب تو مفقود ہو گیا ہوں میں
یوں کھنچے مفلسی میں سب رشتے
جیسے مردود ہو گیا ہوں میں
منفعت بانٹتا رہا کل تک
آج بے سود ہو گیا ہوں میں
شہر رد و قبول میں آ کر
بود و نابود ہو گیا ہوں میں
عمر کی نارسا مسافت میں
گرد آلود ہو گیا ہوں میں
حزن کی یاس کی ودیعت پر
عین مسعود ہو گیا ہوں میں
باب شہر سخن ہوا تھا علیؔ
نطق مسدود ہو گیا ہوں میں
غزل
حسب مقصود ہو گیا ہوں میں
علی مزمل