EN हिंदी
حسب مقصود ہو گیا ہوں میں | شیح شیری
hasb-e-maqsud ho gaya hun main

غزل

حسب مقصود ہو گیا ہوں میں

علی مزمل

;

حسب مقصود ہو گیا ہوں میں
راکھ کا دود ہو گیا ہوں میں

ایک کمرے تلک بصیرت ہے
کتنا محدود ہو گیا ہوں میں

نام پہلے برائے نام تو تھا
اب تو مفقود ہو گیا ہوں میں

یوں کھنچے مفلسی میں سب رشتے
جیسے مردود ہو گیا ہوں میں

منفعت بانٹتا رہا کل تک
آج بے سود ہو گیا ہوں میں

شہر رد و قبول میں آ کر
بود و نابود ہو گیا ہوں میں

عمر کی نارسا مسافت میں
گرد آلود ہو گیا ہوں میں

حزن کی یاس کی ودیعت پر
عین مسعود ہو گیا ہوں میں

باب شہر سخن ہوا تھا علیؔ
نطق مسدود ہو گیا ہوں میں