حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں
وہ آئیں گے نہیں آئیں گے ہم سجے ہوئے ہیں
بڑا ہی خوشیوں بھرا ہنستا بستا گھر ہے مرا
اسی لیے تو سبھی قمقمے جلے ہوئے ہیں
وہ خود پسند ہے خود کو ہی دیکھنا چاہے
سو اس کے چاروں طرف آئنے لگے ہوئے ہیں
یہ کس حسیں کی سواری گزرنے والی ہے
جو کائنات کے سب راستے سجے ہوئے ہیں
مہک رہی ہے فضا اس بدن کی خوشبو سے
چمن ہرا بھرا ہے پھول بھی کھلے ہوئے ہیں
میں اس کی سمت میں خود راستہ بناؤں گا
وگرنہ اس کی طرف راستے بنے ہوئے ہیں
غزل
حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں
اکبر حمیدی