EN हिंदी
حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں | شیح شیری
harif-e-gardish-e-ayyam to bane hue hain

غزل

حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں

اکبر حمیدی

;

حریف گردش ایام تو بنے ہوئے ہیں
وہ آئیں گے نہیں آئیں گے ہم سجے ہوئے ہیں

بڑا ہی خوشیوں بھرا ہنستا بستا گھر ہے مرا
اسی لیے تو سبھی قمقمے جلے ہوئے ہیں

وہ خود پسند ہے خود کو ہی دیکھنا چاہے
سو اس کے چاروں طرف آئنے لگے ہوئے ہیں

یہ کس حسیں کی سواری گزرنے والی ہے
جو کائنات کے سب راستے سجے ہوئے ہیں

مہک رہی ہے فضا اس بدن کی خوشبو سے
چمن ہرا بھرا ہے پھول بھی کھلے ہوئے ہیں

میں اس کی سمت میں خود راستہ بناؤں گا
وگرنہ اس کی طرف راستے بنے ہوئے ہیں