ہرگز نہ مرے محرم ہمراز ہوئے تم
آئینے میں اپنے ہی نظر باز ہوئے تم
شکوہ نہ مجھے غیر سے نے یار کی خو سے
دشمن مرے اے طالع ناساز ہوئے تم
خمیازہ کشان مے الفت کی بن آئی
مے پی کے جو کل مست سر انداز ہوئے تم
میں تم کو نہ کہتا تھا کہ آئینہ نہ دیکھو
آخر ہدف چشم فسوں ساز ہوئے تم
دکھ پہنچے جو کچھ تم کو تمہاری یہ سزا ہے
کیوں اس کے ہوسؔ عاشق جانباز ہوئے تم
غزل
ہرگز نہ مرے محرم ہمراز ہوئے تم
مرزا محمد تقی ہوسؔ