حرف سے تاثیر لفظوں سے معنی لے گیا
جاتے جاتے وہ مری جادو بیانی لے گیا
اس سے تھیں منسوب جو یادیں سہانی لے گیا
چھین کر مجھ سے سبھی اپنی نشانی لے گیا
شاہراہ زیست پر مجھ کو اکیلا چھوڑ کر
جانے والا مجھ سے لطف زندگانی لے گیا
میز پر ننھا سا اک کاغذ کا ٹکڑا چھوڑ کر
زندگی کی ہر خوشی وہ ناگہانی لے گیا
ہم ادھر مصروف تھے اور وقت کا سیل رواں
کیا پتا کب چھین کر ہم سے جوانی لے گیا
مدتوں سے ساکت و جامد ہے یہ نایاب دل
کون اس دریا کی موجوں کی روانی لے گیا

غزل
حرف سے تاثیر لفظوں سے معنی لے گیا
جہانگیر نایاب