حرف لرزاں ہیں کہ ہونٹوں پہ وہ آئیں کیسے؟
راہ میں آہوں کے شعلے ہیں بجھائیں کیسے؟
وضع داری کے وہ پہرے ہیں کہ اے جذبۂ دل
سنگ اور آئنہ اک ساتھ اٹھائیں کیسے؟
وہ مناظر جو طبیعت کو جواں رکھتے ہیں
اے خزاں اب ترے ہاتھوں سے بچائیں کیسے؟
خشک آنکھوں میں اترنے سے بھلا کیا ہوگا
دل ہے صد پارہ بھلا اس میں بٹھائیں کیسے؟
ڈر ہے دامن نہ سلگ جائے ٹپک جائے اگر
اشک آنکھوں میں تڑپتے ہیں بہائیں کیسے؟
اے عتیقؔ آپ کی یہ کم نظری ہے ورنہ
اس قدر جلوے ہیں آنکھوں میں سجائیں کیسے؟
غزل
حرف لرزاں ہیں کہ ہونٹوں پہ وہ آئیں کیسے؟
عتیق اثر