حرف تہجی سیکھ رہا ہوں
دریا میں میں کود گیا ہوں
میرے قدم کی آہٹ پا کر
رات جو سہمی چونک گیا ہوں
سامنے منزل آ گئی لیکن
آگے کیا ہے سوچ رہا ہوں
تیری طرف اک گام بڑھا تھا
اب میں خود کو ڈھونڈ رہا ہوں
کون کرے گا صورت صیقل
زنگ لگا اک آئینہ ہوں
منزل سے ہے اتنا تعلق
میل کا پتھر بن کے کھڑا ہوں

غزل
حرف تہجی سیکھ رہا ہوں
سخاوت شمیم