حرف تدبیر نہ تھا حرف دلاسہ روشن
میں جو ڈوبا تو ہوا ساحل دریا روشن
عہد میں اپنے مسلط ہے اندھیروں کا عذاب
طاق میں وقت کے رکھ دو کوئی لمحہ روشن
یوسف آسا سر بازار ہیں رسوا لیکن
وادیٔ عشق میں ہے عزم زلیخا روشن
جو مری ماں نے دیا رخت سفر کی صورت
میرے ماتھے پہ ابھی تک ہے وہ بوسہ روشن
تیر اندھیروں کے مجھے زد میں لیے بیٹھے ہیں
جیسے اس بزم میں ہوں میں ہی اکیلا روشن
عین ممکن ہے پگھل جائیں اندھیرے دل کے
اے ظفرؔ ایسے میں ہو گر کوئی نغمہ روشن
غزل
حرف تدبیر نہ تھا حرف دلاسہ روشن
ظفر مرادآبادی