حرف شکوہ نہ لب پہ لاؤ تم
زخم کھا کر بھی مسکراؤ تم
اپنے حق کے لیے لڑو بے شک
دوسروں کا نہ حق دباؤ تم
سب اسے دل لگی سمجھتے ہیں
اب کسی سے نہ دل لگاؤ تم
مصلحت کا یہی تقاضا ہے
وہ نہ مانیں تو مان جاؤ تم
اپنا سایہ بھی اب نہیں اپنا
اپنے سائے سے خوف کھاؤ تم
موت منڈلا رہی ہے شہروں پر
جا کے صحرا میں گھر بناؤ تم
دوستوں کو تو خوب دیکھ چکے
دشمنوں کو بھی آزماؤ تم
راستی پہ مدار ہو جس کا
اب نہ وہ بات لب پہ لاؤ تم
جو بھلا مانگتے تھے سر بت کا
ان بزرگوں کو پھر بلاؤ تم
غزل
حرف شکوہ نہ لب پہ لاؤ تم
آتش بہاولپوری