حرف کن شہ رگ ہو میں گم ہے
اک جہاں ذوق نمو میں گم ہے
اپنے ہی حسن کا عکاس ہے حسن
آئنہ آئنہ رو میں گم ہے
کیف آمیز ہے کیفیت حال
نشۂ مے کہ سبو میں گم ہے
درد چیخ اٹھتا ہے سینے میں کوئی
زخم جیسے کہ لہو میں گم ہے
تیر مت دیکھ مرے زخم کو دیکھ
یار یار اپنا عدو میں گم ہے
کھول مت بند قبا رہنے دے
چاک دامان رفو میں گم ہے
نافۂ آہوئے تاتار ہے عشق
بوئے گل اپنی ہی بو میں گم ہے
خاک اڑتی ہے سر ساحل جو
تشنگی نہر گلو میں گم ہے
یہ بھی کیا خود ہے کہ خود میں بھی نہیں
یہ بھی کیا میں ہے کہ تو میں گم ہے
مست ہوں اپنی انا میں میں بھی
اور وہ اپنی ہی خو میں گم ہے
غزل
حرف کن شہ رگ ہو میں گم ہے
شاہد کمال