حرف بے آواز سے دہکا ہوا
اک دیا ہوں طاق میں جلتا ہوا
اس طرف دیوار کے بھی میں ہی تھا
اس طرف بھی میں ہی تھا بیٹھا ہوا
آنگنوں میں پھول تھے مہکے ہوئے
کھڑکیوں میں چاند تھا ٹھہرا ہوا
کورے کاغذ پر عجب تحریر تھی
پڑھتے پڑھتے میں جسے اندھا ہوا
کیا کہوں دست ہوا کے شعبدے
ریت پر اک نام تھا لکھا ہوا
میرے خوں کی گردشیں بھی بڑھ گئیں
اس قبا کا رنگ بھی گہرا ہوا
انگلیوں میں اس بدن کا لوچ ہے
رنگ و خوشبو کا سفر تازا ہوا
رات بھر جس کی صدا آتی رہی
سوچتا ہوں وہ پرندہ کیا ہوا
جاگتی آنکھوں میں اخترؔ عکس کیا
میں نے دیکھا قافلا جاتا ہوا
غزل
حرف بے آواز سے دہکا ہوا
اختر ہوشیارپوری