حرف آغاز صدائے کن فکاں تھا اور میں
رقص میں سورج تھا پیلا آسماں تھا اور میں
گر گئی مندری زمیں کی دھوپ کے تالاب میں
جستجو میں اک جہان بے نشاں تھا اور میں
روشنی کے دائرے تھے ٹوٹتے بنتے رہے
لفظ کی تولید کا زریں سماں تھا اور میں
اک شعاع سے چھانٹنا تھے رنگ خوشبو ذائقے
ایک پیچیدہ انوکھا امتحاں تھا اور میں
ٹھن گیا تھا اک تنازع ایزد و ابلیس میں
درمیاں کون آیا عکس ناتواں تھا اور میں
بے یقینی اور یقیں کی سرحدیں واضح نہ تھیں
امتراج لا زمان و لا مکاں تھا اور میں
غزل
حرف آغاز صدائے کن فکاں تھا اور میں
سید نصیر شاہ