ہرے پتو سنہری دھوپ کی قربت میں خوش رہنا
مگر ممکن نہیں ہے ایک سی حالت میں خوش رہنا
مگن رہتے ہیں یہ بوڑھے شجر اپنی کتھاؤں میں
انہیں آتا ہے اپنے ذہن کی جنت میں خوش رہنا
ہم انسانوں کو پھر جینے کا مقصد ہی نہیں ملتا
لکھا ہوتا جو اس نے سب کی ہی قسمت میں خوش رہنا
یہ آنسو چار دن کے ہیں یہ آنسو سوکھ جائیں گے
سکھا دیں گے تمہیں حالات ہر صورت میں خوش رہنا
میں اپنے زخم اکثر اس لئے بھی نوچ لیتا ہوں
کہیں شامل نہ ہو جائے مری عادت میں خوش رہنا
سکون دل گنوا بیٹھو گے تم فطرت سے لڑنے میں
جو چاہو عافیت اپنے قد و قامت میں خوش رہنا
پکارا عمر کو خوشیوں نے جب مصروف تھے بے حد
سمے سے سیکھ لیتے کاش ہم فرصت میں خوش رہنا
غزل
ہرے پتو سنہری دھوپ کی قربت میں خوش رہنا
ظفر صہبائی