حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
تمہارے معتقد گبرو مسلماں ہوتے جاتے ہیں
الگ سب سے نظر نیچی خرام آہستہ آہستہ
وہ مجھ کو دفن کر کے اب پشیماں ہوتے جاتے ہیں
سوا طفلی سے بھی ہیں بھولی باتیں اب جوانی میں
قیامت ہے کہ دن پر دن وہ ناداں ہوتے جاتے ہیں
کہاں سے لاؤں گا خون جگر ان کے کھلانے کو
ہزاروں طرح کے غم دل کے مہماں ہوتے جاتے ہیں
خرابی خانہ ہائے عیش کی ہے دور گردوں میں
جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی ویراں ہوتے جاتے ہیں
بیاں میں کیا کروں دل کھول کر شوق شہادت کو
ابھی سے آپ تو شمشیر عریاں ہوتے جاتے ہیں
غضب کی یاد میں عیاریاں واللہ تم کو بھی
غرض قائل تمہارے ہم تو اے جاں ہوتے جاتے ہیں
ادھر ہم سے بھی باتیں آپ کرتے ہیں لگاوٹ کی
ادھر غیروں سے بھی کچھ عہد و پیماں ہوتے جاتے ہیں
غزل
حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
اکبر الہ آبادی