EN हिंदी
ہرا بھرا تھا کبھی جھاڑ سا بدن میرا | شیح شیری
hara-bhara tha kabhi jhaD sa badan mera

غزل

ہرا بھرا تھا کبھی جھاڑ سا بدن میرا

خلیل رامپوری

;

ہرا بھرا تھا کبھی جھاڑ سا بدن میرا
کہ آئنوں میں جھلکتا تھا بانکپن میرا

چراغ لے کے مجھے ڈھونڈنے نکلتا تھا
مرے بغیر نہ رہتا تھا ہم سخن میرا

سیاہیوں کے بھنور سے نکل کے آیا ہوں
دھلا رہی ہے اجالوں سے منہ کرن میرا

سیاہ پھول کھلا دھوپ کی منڈیروں پر
ہوا میں ٹانگ دیا کس نے پیرہن میرا

میں ریگ زار پہ لکھی ہوئی عبارت ہوں
ہوا چلے گی تو اڑ جائے گا بدن میرا

بلا رہی ہے مجھے برف سے ڈھکی چوٹی
پڑا ہوا ہے چٹانوں کے گھر کفن میرا

شمار ہونے لگے موتیوں میں کنکر بھی
خلیلؔ کام تو آیا کسی کے فن میرا