ہر ذرہ ہے جمال کی دنیا لیے ہوئے
انساں اگر ہو دیدۂ بینا لیے ہوئے
کیف نگاہ سحر بیاں مستئ خرام
ہم آئے ان کی بزم سے کیا کیا لیے ہوئے
نقش و نگار دہر کی رعنائیاں نہ پوچھ
در پردہ ہیں کسی کا سراپا لیے ہوئے
بے لاگ میں گزر گیا ہر خوب و زشت سے
اپنی نظر میں ذوق تماشا لیے ہوئے
راہ حیات میں نہ ملا کوئی ہم سفر
تنہا چلا ہوں نام کسی کا لیے ہوئے
برباد التفات کی تقدیر دیکھنا
وہ آئے بھی تو رنجش بے جا لیے ہوئے
ہستی کے حادثوں کے مقابل ڈٹا رہا
میں ان کی اک نظر کا سہارا لیے ہوئے
ریحانئؔ حزیں ہے خزاں میں غزل سرا
رنگینئ بہار کا سودا لیے ہوئے
غزل
ہر ذرہ ہے جمال کی دنیا لیے ہوئے
ہینسن ریحانی