ہر ذرہ چشم شوق سر رہ گزر ہے آج
دل محو انتظار ہے اور کس قدر ہے آج
گویا وہ جلوہ گر ہیں نگاہوں کے رو بہ رو
اس درجہ اعتبار فریب نظر ہے آج
مدہوشیٔ جمال ہے یا حسن التفات
تمکیں سے بے خبر نگۂ فتنہ گر ہے آج
آہٹ پہ سانس کی تری آمد کا ہے گماں
ہنگامۂ حیات بھی خاموش تر ہے آج
جو راز دو جہاں ہے امانت ہے حسن کی
حاصل مجھے وہ عظمت درد جگر ہے آج
منزل کا مجھ کو ہوش نہ اپنی خبر ہے آج
وہ جان آرزو جو مرا ہم سفر ہے آج
تحلیل ہو نہ جائے کہیں روح کائنات
ساقی جو یہ لطافت کیف نظر ہے آج
محویت جمال میں یارائے گفتگو
اے عرض شوق عالم نوع دگر ہے آج
ساز الم بھی سوز طرب خیز ہے حمیدؔ
ہر اک نواۓ درد مری نغمہ گر ہے آج

غزل
ہر ذرہ چشم شوق سر رہ گزر ہے آج
حمید ناگپوری