EN हिंदी
ہر وقت الجھتا ہے یہ دل زلف دوتا میں | شیح شیری
har-waqt ulajhta hai ye dil zulf-e-dota mein

غزل

ہر وقت الجھتا ہے یہ دل زلف دوتا میں

محمد ولایت اللہ

;

ہر وقت الجھتا ہے یہ دل زلف دوتا میں
سمجھاتا ہوں کم بخت نہ پڑ جا کے بلا میں

دیکھو نہ کبھی خوئے ستم اپنی بدلنا
ملتا ہے مزا ہم کو بہت جور و جفا میں

کس لطف سے ایام گزرتے ہیں ہمارے
دن نالہ و فریاد میں شب آہ و بکا میں

مٹی ہوئی برباد ترے عشق میں ایسی
کچھ خاک کے ذرے نظر آتے ہیں ہوا میں

کیوں چل دئے مے خانہ سے اے شیخ ٹھہرنا
پوشیدہ نظر آتا ہے کچھ آج عبا میں

کہتی ہے یہ توبہ کہ گناہ گار میں بہتر
اے دل کبھی بھولے سے بھی پڑنا نہ ریا میں

کر دوں شب فرقت کا بیاں حشر میں لیکن
ڈرتا ہوں طوالت نہ پڑے روز جزا میں

مرنا جسے کہتے ہیں وہ ہے زیست کا آغاز
ملتی ہے بقا سب کو اسی راہ فنا میں

کس کے لئے اللہ نے جنت کو بنایا
بندے تو یہاں رہتے ہیں ہر وقت خطا میں

مقبول ہوئی حشر میں گر میری خجالت
مل جائے گی جنت بھی گناہوں کی سزا میں

واعظ کہے کچھ بھی ہمیں معلوم ہے یا رب
سو خلد ہیں پوشیدہ تری ایک رضا میں

ہل جاتی ہے دنیا مری فریاد سے حافظؔ
تاثیر غضب کی ہے مری آہ رسا میں