ہر طرف نالہ و فریاد کے منظر دیکھیں
تجھ کو دیکھیں کہ ترا شہر ستم گر دیکھیں
دور سے وہ نظر آئے گا بس اک سائے سا
اس کو دیکھیں تو ذرا پاس بلا کر دیکھیں
چاند سورج نہ ستارے ہیں ہمارے بس میں
ایک مٹی کا دیا ہے سو جلا کر دیکھیں
ہم بدل سکتے ہیں خود کو یہ بڑی بات نہیں
شرط اتنی ہے کہ باہر نہیں اندر دیکھیں
موم سا اس کا بدن ہے یہی کہتے ہیں سب
جی میں آتا ہے چلو آج اسے چھو کر دیکھیں
آج اخبار میں آئی ہے غزل حارثؔ کی
آدمی خوب ہے کیسا ہے سخنور دیکھیں

غزل
ہر طرف نالہ و فریاد کے منظر دیکھیں
عبید حارث