ہر طرف موج بلا کی سی روانی دیکھی
اشک کی گود میں مجبور کہانی دیکھی
ہم بدلتے ہی رہے عشق میں موسم کے مگر
گھر کی چوکھٹ پہ سدا گرد پرانی دیکھی
درد کے صحن کو دشمن نہیں جانا ہم نے
اس میں دل کش نئی دنیا کی نشانی دیکھی
دشت وحشت کی نمائش کا حوالہ دے کر
شہر دل دار کے تیور کی جوانی دیکھی
چاند تاروں کے تلے ہاتھ میں خنجر تھامے
مسکراتی سی کہیں ایک دوانی دیکھی
ایک آواز نئی کان میں گونجی اس دم
جب بھی تصویر زمانے کی سہانی دیکھی
خوش لباسی پہ ہواؤں کی نہ جانا جعفرؔ
اس کے حلقے میں پریشان سی رانی دیکھی

غزل
ہر طرف موج بلا کی سی روانی دیکھی
جعفر ساہنی