ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
آج مستحکم محبت ہو گئی
بن گئی بیمار غم کی زندگی
ان کی جب چشم عنایت ہو گئی
شکریہ جو آپ آئے دیکھنے
کم سے کم جینے کی صورت ہو گئی
غیر اپنے اور اپنے غیر ہیں
کیا سے کیا دنیا کی حالت ہو گئی
دیکھیے ضبط محبت کا مآل
اشک غم پینے کی عادت ہو گئی
مسکرائے مجھ کو روتا دیکھ کر
آپ کی ظاہر محبت ہو گئی
تم سے مل کر اتنے غم سہنے پڑے
غم پسندانہ طبیعت ہو گئی
جن کا ساجدؔ عمر بھر کہنا کیا
اب انہیں کو ہم سے نفرت ہو گئی
غزل
ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی
ساجد صدیقی لکھنوی