ہر سو جہاں میں شام و سحر ڈھونڈتے ہیں ہم
جو دل میں گھر کرے وہ نظر ڈھونڈتے ہیں ہم
ان بستیوں کو پھونک کے خود اپنے ہاتھ سے
اپنے نگر میں اپنا وہی گھر ڈھونڈتے ہیں ہم
جز ریگ زار کچھ بھی نہیں تا حد نگاہ
صحرا میں سایہ دار شجر ڈھونڈتے ہیں ہم
تسلیم ہے کہ جڑتا نہیں ہے شکستہ دل
پھر بھی دکان آئینہ گر ڈھونڈتے ہیں ہم
جس کی ادا ادا پہ ہو انسانیت کو ناز
مل جائے کاش ایسا بشر ڈھونڈتے ہیں ہم
کچھ امتیاز مذہب و ملت نہیں ہمیں
اک معتبر رفیق سفر ڈھونڈتے ہیں ہم
اس دور میں جو فن کو ہمارے پرکھ سکے
وہ صاحب زبان و نظر ڈھونڈتے ہیں ہم
ہاتھ آئے گا نہ کچھ بھی بجز سنگ بے بساط
اتھلے سمندروں میں گہر ڈھونڈتے ہیں ہم
عاجزؔ تلاش شمع میں پروانے محو ہیں
حیرت انہیں ہے ان کو اگر ڈھونڈتے ہیں ہم
غزل
ہر سو جہاں میں شام و سحر ڈھونڈتے ہیں ہم
عاجز ماتوی