ہر سو ہے تاریکی چھائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
کس نے ایسی شمع جلائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
کس جانب ہے اپنی منزل دوراہے پر آ پہنچے
کس نے ایسی راہ بتائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
دشت تپاں میں جانے کب سے دل نے دی ہیں آوازیں
کوئی بھی آواز نہ آئی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
راہ کسی کی تکتے تکتے تارے بھی اب راکھ ہوئے
صبح کی دیوی بھی مسکائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
درد کے بے پایاں صحرا میں دور تلک ہے سناٹا
زخم دل نے لی انگڑائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
غزل
ہر سو ہے تاریکی چھائی تم بھی چپ اور ہم بھی چپ
اسلم آزاد