ہر شخص پریشان ہے گھبرایا ہوا ہے
مہتاب بڑی دیر سے گہنایا ہوا ہے
ہے کوئی سخی اس کی طرف دیکھنے والا
یہ ہاتھ بڑی دیر سے پھیلایا ہوا ہے
حصہ ہے کسی اور کا اس کار زیاں میں
سرمایہ کسی اور کا لگوایا ہوا ہے
سانپوں میں عصا پھینک کے اب محو دعا ہوں
معلوم ہے دیمک نے اسے کھایا ہوا ہے
دنیا کے بجھانے سے بجھی ہے نہ بجھے گی
اس آگ کو تقدیر نے دہکایا ہوا ہے
کیا دھوپ ہے جو ابر کے سینے سے لگی ہے
صحرا بھی اسے دیکھ کے شرمایا ہوا ہے
اصرار نہ کر میرے خرابے سے چلا جا
مجھ پر کسی آسیب کا دل آیا ہوا ہے
تو خواب دگر ہے تری تدفین کہاں ہو
دل میں تو کسی اور کو دفنایا ہوا ہے
غزل
ہر شخص پریشان ہے گھبرایا ہوا ہے
فیصل عجمی