EN हिंदी
ہر شخص کو ایسے دیکھتا ہوں | شیح شیری
har shaKHs ko aise dekhta hun

غزل

ہر شخص کو ایسے دیکھتا ہوں

صادق نسیم

;

ہر شخص کو ایسے دیکھتا ہوں
جیسے کہیں دور جا رہا ہوں

دیکھی ہی نہیں خزاں کی صورت
کس گلشن شوق کی ہوا ہوں

خود اپنی نگاہ سے ہوں روپوش
آئنہ ہوں جہاں نما ہوں

بے نور ہوئی ہیں جب سے آنکھیں
آئنے تلاش کر رہا ہوں

ناقدر شناس جوہری کو
راہوں میں پڑا ہوا ملا ہوں

جب رات کی زلف بھیگتی ہے
سناٹے کی طرح گونجتا ہوں

اس دور خزاں نصیب میں بھی
کلیاں سی کھلا کھلا گیا ہوں

آنکھوں میں وحشتیں رچی ہیں
خوابوں میں بھی خاک چھانتا ہوں

ہے چہرہ جو داغ داغ اپنا
ہر آئنے سے خفا خفا ہوں

تلوار پہ رقص کا نتیجہ
جب پاؤں کٹے تو سوچتا ہوں

پردۂ صبا نہ خوف صرصر
خاکستر یاس پر کھلا ہوں