EN हिंदी
ہر شجر کے تئیں ہوتا ہے ثمر سے پیوند | شیح شیری
har shajar ke tain hota hai samar se paiwand

غزل

ہر شجر کے تئیں ہوتا ہے ثمر سے پیوند

غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

;

ہر شجر کے تئیں ہوتا ہے ثمر سے پیوند
آہ کو کیوں نہیں ہوتا ہے اثر سے پیوند

دیکھنا زور ہی گانٹھا ہے دل یار سے دل
سنگ‌‌‌ و شیشے کو کیا ہے میں ہنر سے پیوند

مژۂ خون دل آلودہ پہ یہ ہے قطرۂ اشک
یوں ہے جیوں شاخ ہو مرجاں کی گہر سے پیوند

مل رہا ہے ترے عارض سے خط مورچہ یہ
جیسے آئینے کے جوہر ہو جگر سے پیوند

سوزش‌ اشک سے معلوم یہ ہوتا ہے مجھے
قطرۂ آب بھی ہوتا ہے شرر سے پیوند

تھان زربفت کے ہوتے تھے جہاں قطع حضورؔ
جن کی پوشاک سدا ہوتی تھی زر سے پیوند

اب پھٹا جامہ گزی کا نہیں گر ہے بھی کوئی
تو نکالے کو نکلتا نہیں گھر سے پیوند