ہر شے میں نمایاں ہے جلوہ آنکھوں سے مگر مستور بھی ہے
شہ رگ سے قریں ہے حسن ازل شہ پر سے نظر کے دور بھی ہے
ہے پردہ اندر پردہ وہ اور ارض و سما کا نور بھی ہے
جب یاد کرو نزدیک ہے وہ جب ڈھونڈو اس کو دور بھی ہے
محدود بھی لا محدود بھی ہے آزاد بھی ہے مجبور بھی ہے
فیضان نظر سے ہر ذرہ ہشیار بھی ہے مخمور بھی ہے
ہے ذرہ ذرہ بھی صحرا ہے قطرہ قطرہ بھی دریا
سمجھو نہ تو ایمن ہے پتھر پتھر کو جو سمجھو طور بھی ہے
پھر جبر و ستم کے سائے میں کچھ لوگ خدا بن بیٹھے ہیں
موسیٰ ہی نہیں ہیں اب ورنہ فرعون بھی ہے اور طور بھی ہے
جیسے غنچے کھل اٹھتے ہیں تر ہو کر اشک شبنم سے
دل شب بھر ہجر میں رو رو کر ہر صبح یوں ہی مسرور بھی ہے
کمزور ہی سے تقصیریں ہیں مجبوری پر تعزیریں ہیں
یہ ڈگر ڈگر مشہور بھی ہے یہ نگر نگر دستور بھی ہے

غزل
ہر شے میں نمایاں ہے جلوہ آنکھوں سے مگر مستور بھی ہے
خلیل الرحمٰن راز