EN हिंदी
ہر شے میں مجھے کل کا تماشا نظر آیا | شیح شیری
har shai mein mujhe kul ka tamasha nazar aaya

غزل

ہر شے میں مجھے کل کا تماشا نظر آیا

قیس جالندھری

;

ہر شے میں مجھے کل کا تماشا نظر آیا
قطرہ لئے آغوش میں دریا نظر آیا

تھی شوخ نگاہی کسی ظالم کی قیامت
جذبات کا عالم تہہ و بالا نظر آیا

جب آنکھ کھلی وہم بھی تھا اصل سراسر
جب راز کھلا اصل بھی دھوکا نظر آیا

پہلو میں جو تھا دل تو فقط خون کا قطرہ
آنکھوں میں پہنچتا تھا کہ دریا نظر آیا

جب ہوش نہ آیا تھا پرایا بھی تھا اپنا
ہوش آیا تو اپنا بھی پرایا نظر آیا

اس بزم میں اللہ رے حیرت کا یہ عالم
پردہ کے نہ ہونے پہ بھی پردہ نظر آیا