ہر شے کی عقیدت سے تصویر نہیں بنتی
ہر خاک قدم یارو اکسیر نہیں بنتی
جب وقت بگڑتا ہے ہوتا ہے جہاں دشمن
جب بات بگڑتی ہے تدبیر نہیں بنتی
حالات جب انساں کو دیوانہ بناتے ہیں
حالات کے ہاتھوں پھر زنجیر نہیں بنتی
خود جہد مسلسل سے قسمت کو سنوارو تم
اوروں کے بنائے سے تقدیر نہیں بنتی
مانگے ہوئے سکوں کا معیار نہیں ہوتا
لوٹی ہوئی دولت سے جاگیر نہیں بنتی
ایثار بتانا ہے محراب وفا اکثر
ایثار کے ہاتھوں سے شمشیر نہیں بنتی
اے شیشہ گروں اب تک آخر یہ کمی کیوں ہے
آئینہ بناتے ہو تصویر نہیں بنتی
اخلاص کے سانچے میں ڈھلتا ہے اثر لیکن
الفاظ کے پہلو میں تاثیر نہیں بنتی
قسمت کے لکھے میں کیا ترمیم کروں ساجدؔ
مجبور ہوں اس جیسی تحریر نہیں بنتی
غزل
ہر شے کی عقیدت سے تصویر نہیں بنتی
ساجد صدیقی لکھنوی