ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں شہر کے لوگو
یہ شہر تو تھا شہر اماں شہر کے لوگو
دیوانگیٔ اہل خرد پہنچی یہاں تک
ہر شخص کا چہرہ ہے دھواں شہر کے لوگو
رفعت کسے ملتی ہے فراوانیٔ زر سے
کردار سے ہو فخر زماں شہر کے لوگو
لے آئی یہاں تک ہمیں کردار کی پستی
عظمت ہے نہ عظمت کے نشاں شہر کے لوگو
پروردۂ ایمان و یقیں ہوتے ہوئے بھی
یہ وسوسۂ وہم و گماں شہر کے لوگو
پھینکو نہ خموشی پہ مری طنز کے پتھر
اب بھی ہے مرے منہ میں زباں شہر کے لوگو
پتھر کی چٹانوں سے رکا ہے نہ رکے گا
انعامؔ ہے اک جوئے رواں شہر کے لوگو
غزل
ہر سمت سے اٹھتا ہے دھواں شہر کے لوگو
انعام حنفی