ہر سانس اک ہجوم پریشاں دھواں کا تھا
اپنا وجود سانحہ جلتے مکاں کا تھا
اک جرم کانچ کا ہی نہیں خوں رلانے میں
کچھ ہاتھ کم نگاہیٔ شیشہ گراں کا تھا
پتھر تو دشمنوں نے بھی پھینکے ہزار بار
جو گھاؤ لگ سکا وہ فقط دوستاں کا تھا
جس دام پر بھی مانگا زمانے کو دے دیا
ہر سانس کوئی مال اک اٹھتی دکاں کا تھا
جو تیر آج دل میں ترازو ہوا کبھی
چھوٹا ہوا وہ دوستو اپنی کماں کا تھا
غزل
ہر سانس اک ہجوم پریشاں دھواں کا تھا
شمشاد سحر